تحریر: سید شایان

کل مطالعے کا دورانیہ: 1 گھنٹے 32 منٹ (اب تک 15 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
تیسری قسط
صدر ٹرمپ کو اُس وقت دنیا کے سامنے شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب یوکرین کی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ اولیکساندر میرژھکو (Oleksandr Merezhko) نے 24 جون 2025 کو اُن کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی واپس لے لی۔ میرژھکو نے واضح کیا کہ ٹرمپ کے فیصلوں کو وہ تسلیم نہیں کرتے اور اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے اُن کے ملک، یوکرین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
میرژھکو نے نومبر 2024 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹرمپ کو اس بنیاد پر نامزد کیا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے میں ممکنہ طور پر ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم، چند ماہ بعد جب ٹرمپ نے واضح طور پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور جنگ بندی کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہ آئی، تو میرژھکو نے 24 جون 2025 کو نوبل کمیٹی سے باقاعدہ درخواست کر کے اپنی نامزدگی واپس لے لی۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں “ٹرمپ کی امن قائم کرنے کی صلاحیت پر اب کوئی اعتماد نہیں رہا” اور اُن کے بیانات صرف وعدوں تک محدود رہے۔ میرژھکو کے اس فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ 2025 کے نوبل انعام کے نامزدگیوں کی فہرست سے نکل گئے اور اس سال ان کے انعام حاصل کرنے کی امید ختم ہو گئی۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ عالمی سطح پر ان کی سفارتی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔
لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی کہ جب ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی رکنِ کانگریس بڈی کارٹر (Buddy Carter)، جو ریاست جارجیا کے ساحلی علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں، نے 24 جون 2025 کو اسی روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے دوبارہ باضابطہ طور پر نامزد کر دیا۔ اُن کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری بارہ روزہ جنگ کو ختم کرانے میں ایک تاریخی ثالثی کردار ادا کیا اور ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے فیصلہ کن سفارتی حکمتِ عملی اپنائی۔ بڈی کارٹر کا مؤقف تھا کہ صدر ٹرمپ کی یہ کوششیں نوبل امن انعام کے بنیادی اصولوں، یعنی امن کے فروغ، جنگ کی روک تھام، اور بین الاقوامی ہم آہنگی سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت صرف مشرقِ وسطیٰ میں نہیں، بلکہ پاکستان و بھارت، روانڈا اور کانگو جیسے دیگر عالمی تنازعات میں بھی اثرانداز ہوئی ہے، اس لیے وہ نوبل انعام کے مستحق ہیں۔
یعنی یہ واقعہ بھی نوبل کمیٹی نے اپنی 124 سالہ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا جس میں کسی شخصیت کی نامزدگی ایک ہی دن واپس بھی لی گئی ہو اور اُسی دن کسی اور جانب سے اُسے دوبارہ نامزد بھی کر دیا گیا ہو۔
لیکن اس واقعہ سے تین روز پہلے 21 جون 2025 کو پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا، جس پر صدر ٹرمپ خاصے مطمئن بھی دکھائی دیتے تھے۔ اُن کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ اگر یوکرین اپنا نام واپس بھی لے لے تو کیا ہوا، پاکستان تو پہلے ہی ان کی حمایت کر چکا ہے۔
مگر صورتحال اُس وقت بدل گئی جب 24 جون کو یوکرین کے قانون ساز اولیکساندر میرژھکو نے رسمی طور پر نوبل کمیٹی سے اپنی نامزدگی واپس لے لی، بلکہ ٹرمپ پر شدید تنقید بھی کی کہ اُن کے فیصلوں سے یوکرین کو نقصان پہنچا۔ دوسری طرف امریکی میڈیا نے پاکستان کے دوہرے کردار کو موضوعِ بحث بنایا ہوا تھا کہ ایک طرف اس ملک نے ٹرمپ کی حمایت میں نوبل انعام کی سفارش کی اور دوسری طرف پاکستان کے سینئر وزرا اور اہم شخصیات کی طرف سے ایران پر حملے کے خلاف ٹرمپ پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ تضاد ٹرمپ کے لیے باعثِ تشویش بن گیا۔
اور یوں صدر ٹرمپ نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ یوکرین کے اولیکساندر میرژھکو نے ان کے ساتھ جو کیا، اگر وہی پاکستانی حکومت بھی اپنے لوگوں کے دباؤ میں آ کر کرتی ہے، اور آگے چل کر نوبل انعام کے لیے ان کی نامزدگی واپس لیتی ہے، یا اگر نوبل انعام کمیٹی پاکستانی دوہرے کردار کو اپنے سامنے رکھتی ہے، تو پاکستان کی حمایت ان کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اور غالباً اسی سوچ کے نتیجے میں جارجیا سے بڈی کارٹر (Buddy Carter) اچانک منظر پر طلوع ہوئے۔
نوبل کمیٹی، جو نارویجن پارلیمنٹ کے زیرِ نگرانی پانچ رکنی غیر سیاسی ادارہ ہے، نوبل انعامات کی سفارشات کا جائزہ صرف نیت پر نہیں بلکہ سفارش کنندہ کی بین الاقوامی ساکھ، شفافیت اور غیر جانبداری کی بنیاد پر بھی لیتی ہے۔ نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی کے عمل میں غیر جانب داری (neutrality) اور اخلاقی استقامت (moral integrity) کو بنیادی اصول کی حیثیت حاصل ہے۔
ناروے اور یورپی ممالک میں پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی جمہوریت، میڈیا کی آزادی اور سفارتی خودمختاری پر کئی سوالات اٹھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، فریڈم ہاؤس کی 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو “جزوی طور پر آزاد مُلک” (Partly Free) کا درجہ دیا گیا، جہاں میڈیا اور سول سوسائٹی پر دباؤ کا ذکر ہے۔ اسی طرح، یورپی یونین کی رپورٹس میں پاکستان کے انسانی حقوق اور گورننس کے مسائل پر تنقید کی گئی ہے۔ یہ عوامل پاکستان کی سفارشات کی عالمی ساکھ کو کمزور کر سکتے ہیں، خاص طور پر نوبل کمیٹی جیسے اداروں کے سامنے، جو شفافیت اور غیر جانبداری کو ترجیح دیتے ہیں۔
مبصرین کی رائے کے مطابق، ایسے میں اخلاقی اور سیاسی تنازعات میں گھرا پاکستان اگر کسی کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرتا ہے، تو نوبل کمیٹی کے ممبران اور مغربی ذرائع ابلاغ میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ پاکستان کی طرف سے صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کی سفارش آیا واقعی امن کے فروغ کی خالص نیت سے کی گئی ہے یا یہ تجویز کنندہ کے اپنے کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اور اگر ایسا ہوا، تو صدر ٹرمپ کا نوبل لاریئٹ (Nobel Laureate) بننے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔
(جاری ہے۔۔۔ بقیہ آئندہ چوتھی قسط میں)
3
0 Comment
15 Views