تحریر: سید شایان

کل مطالعے کا دورانیہ: 58 منٹ 50 سیکنڈ (اب تک 11 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
️(دوسری قسط)
▫ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے سمجھ لیا کہ پاکستانی حکومت کی نوبل انعام دینے کی سفارش انہیں فائدہ دینے کے بجائے اُلٹا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے فوری طور پر جارجیا سے تعلق رکھنے والے ایک ریپبلکن رکنِ کانگریس ارل ایل “بڈی” کارٹر (Earl L. “Buddy” Carter) کے ذریعے خود کو نوبل انعام کے لیے احتیاطاً دوبارہ نامزد کروایا ہے، تاکہ تائید کنندہ کا نام بدل کر ساکھ بچائی جا سکے۔ ایسا واقعہ اگر ہوا ہے تو یہ پاکستان کے منہ پر ایک بڑا سفارتی طمانچہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو کیا ضرورت تھی صدر ٹرمپ کو اس قدر جلد امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کی، جبکہ نامزدگی کی ڈیڈ لائن میں ابھی سات ماہ سے بھی زائد کا عرصہ باقی تھا؟
ایسے حالات میں کہ جب عالمی منظرنامہ جنگی ماحول میں ڈوبا ہوا تھا، اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی حملوں نے مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، غزہ میں اسرائیلی جنگی کارروائیاں بھی ابھی جاری تھیں، اور مسلم دنیا میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ تمام مسلم ممالک خاموش احتجاج یا سفارتی فاصلہ اختیار کر رہے تھے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نہ صرف امن کا سفیر قرار دینا بلکہ نوبل انعام کے لیے نامزد کرنا بہت سے مبصرین کے نزدیک حد سے بڑھی ہوئی چاپلوسی یا غیر ضروری سفارتی کارروائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
کئی ناقدین نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کا یہ اقدام واقعی ایک آزاد خارجہ پالیسی کا اظہار تھا یا پھر کسی بیرونی دباؤ یا اندرونی مجبوری کا نتیجہ؟
اس سارے معاملے میں پاکستان کی نیت پر شک اور بڑھ گیا، جب 21 جون 2025 کو پاکستان نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا، اور اگلے ہی دن امریکی فضائی حملے کے ذریعے ایران کے جوہری اثاثے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے نے پاکستان کی نیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی حکومت کی دعوت پر 8 جون سے 20 جون 2025 امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکہ نے باضابطہ طور پر انہیں “US Army Day” تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا، جو 250 ویں سالگرہ کے موقع کی مناسبت سے تھا۔
اس دورے میں 18 جون کو جنرل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس ملاقات میں جنرل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ سے ازخود یہ کہا کہ وہ پاک بھارت تین روزہ جنگ رکوانے میں کردار ادا کرنے پر انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کریں گے، جسے وائٹ ہاؤس نے اعزازی طور پر تسلیم کیا۔
امریکی حکومت کی ترجمان اینا کیلی (Anna Kelly) نے 26 جون کو وائٹ ہاؤس میں ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ جنرل منیر نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ذاتی طور پر ان کی نوبل نامزدگی کی سفارش کی، اور کہا کہ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا
(“Munir personally urged Trump’s nomination for the Nobel Peace Prize…”)
تاہم اس سے پہلے ہی، امریکی میڈیا میں پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیے جانے کو ایک مطلب پرستانہ اقدام قرار دیا جانے لگا تھا۔
سی این این کی رپورٹ
“Pakistan nominates Trump for Nobel Peace Prize, praising ‘stellar statesmanship’” (23 جون 2025)
اور ٹائم میگزین کی رپورٹ
“Trump to Win a Nobel Peace Prize? Pakistan States Nomination” (23 جون 2025)
میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر کے اُن کی “غیر معمولی قیادت” کو سراہا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی دنوں جب صدر ٹرمپ نے ایران پر فضائی حملے کیے، پاکستان نے ان حملوں کی مذمت بھی کی۔ یہ دوہرا مؤقف، ایک ہی وقت میں کسی کو امن کا سفیر کہنا اور اُس کے جنگی اقدامات پر تنقید کرنا، بین الاقوامی میڈیا میں سخت تنقید کا باعث بنا۔ مبصرین نے نشاندہی کی کہ اگر پاکستان ٹرمپ کو واقعی امن کے لیے موزوں سمجھتا ہے، تو پھر اس کے ایران پر حملوں کو بھی “امن کے قیام کی حکمت عملی” قرار دینا چاہیے تھا، نہ کہ اُن کی مخالفت کرنی چاہیے تھی۔
اس تضاد کو بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان کے جیو پولیٹیکل مفادات اور داخلی سیاسی فوائد سے جوڑ کر اسے ایک غیر سنجیدہ اور متضاد سفارتی حکمت عملی قرار دیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے بھی پاکستان کے رویے اور کردار کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔
(جاری ہے۔۔۔ بقیہ آئندہ تیسری قسط میں)
1
0 Comment
11 Views