Home
پبلشنگ کی تاریخ: 4 جولائی, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 3 گھنٹے 22 منٹ (اب تک 14 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

چوتھی / آخری قسط

▪️ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر نوبل انعام کے حصول میں حائل 4 سنگین الزامات:

 

حکومتِ پاکستان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرتے ہوئے کیا یہ سوچا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کی پہلی مدت (2017–2021) کے دوران نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا، مگر انہیں یہ انعام نہیں دیا گیا؟ اس انکار کی ایک بڑی وجہ ان کی وہ متنازع پالیسی تھی جس کے تحت امریکہ میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکینِ وطن، خاص طور پر میکسیکو سے آنے والے خاندانوں کے بچوں کو ان کے والدین سے زبردستی الگ کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں اور خود نوبل کمیٹی کے ارکان نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔ نوبل کمیٹی کے ایک رکن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: “ایسی پالیسی کے بعد ہم انہیں نوبل انعام کیوں دیں؟” جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوبل انعام کے لیے نیک شہرت، اخلاقی قیادت اور انسانیت نوازی بنیادی تقاضے ہیں۔ اور کیا صدر ٹرمپ ان تقاضوں پر پورا اترتے ہیں؟

 

یہ چوتھی قسط اُن چار سنگین الزامات اور قانونی رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہے جو صدر ٹرمپ کی عالمی سطح پر امن کے نمائندہ بننے کی اہلیت کو مشکوک بناتے ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں:

1۔ جنسی ہراسگی کا کیس جس میں صدر ٹرمپ کو عدالت کی طرف سے جون 2025 میں بحیثیت صدر امریکہ سزا اور 5 ملین ڈالر جرمانہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔

 

ای۔ جین کیرول (E. Jean Carroll) ایک مشہور امریکی صحافی اور مصنفہ ہیں، جو پچیس سال تک خواتین کے مشہور جریدے “ایل” (Elle) میگزین میں advice columnist کے طور پر کام کرتی رہیں۔ انہوں نے 2019 میں اپنی کتاب

What Do We Need Men For?: A Modest Proposal

کے ذریعے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1996 میں نیویارک کے ایک ڈیپارٹمنٹ اسٹور کے فٹنگ روم میں ان پر جنسی حملہ کیا تھا، جب وہ صدر نہیں بلکہ ایک معروف کاروباری شخصیت تھے۔ یہ الزام منظر عام پر آنے کے بعد، کیرول نے ٹرمپ کے خلاف نہ صرف جنسی زیادتی (sexual abuse) بلکہ توہینِ ساکھ (defamation) کا مقدمہ بھی دائر کیا۔ مئی 2023 میں نیویارک کی جیوری نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ نے کیرول کے ساتھ مکمل جنسی تعلق (rape) تو قائم نہیں کیا، لیکن زبردستی ان کا جسم چھونا، ان پر جنسی حملہ کرنا اور کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالنا ثابت ہو چکا ہے، جسے امریکی قانون میں “sexual abuse” کہا جاتا ہے۔ عدالت نے ٹرمپ کو اس الزام اور بعد ازاں توہین آمیز بیانات کی بنیاد پر کل 5 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ دسمبر 2024 اور جون 2025 میں اپیل کی تمام سطحوں پر برقرار رہا، اور اس کیس نے ٹرمپ کے کردار اور قانونی ساکھ کو عالمی سطح پر سخت نقصان پہنچایا، جو کہ ان کی نوبل انعام کی نامزدگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

 

2۔ جمہوریت پر حملہ: کیپیٹل ہل بغاوت

6 جنوری 2021 کو امریکی پارلیمنٹ (کیپیٹل ہل) پر اُس وقت حملہ کیا گیا جب وہاں صدر بائیڈن کی انتخابی فتح کی توثیق ہو رہی تھی۔ اس پرتشدد ہجوم کو صدر ٹرمپ کی جانب سے مسلسل دیے جانے والے اشتعال انگیز بیانات اور “الیکشن چوری ہونے” کے دعووں نے ابھارا۔ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک اور درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جب کہ عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔

 

اس واقعے کو امریکی تاریخ میں جمہوریت پر ایک کھلی یلغار قرار دیا گیا، اور امریکی ایوانِ نمائندگان نے صدر ٹرمپ پر باقاعدہ طور پر “بغاوت پر اکسانے” (incitement to insurrection) کا الزام عائد کیا، جس کی بنیاد پر انہیں دوسری بار مواخذے (impeachment) کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ الزام نہ صرف آئینی اور قانونی سطح پر سنگین تھا بلکہ عالمی برادری میں اُن کی ساکھ کو بھی شدید متاثر کرنے والا ثابت ہوا — اور یہی وجہ ہے کہ یہ واقعہ نوبل امن انعام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

 

3۔ غزہ پر پالیسی: اسرائیلی جارحیت کی حمایت اور فلسطینیوں کا قتلِ عام

صدر ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیلی مظالم پر نہ صرف مکمل خاموشی اختیار کی بلکہ یکطرفہ طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ ان کے دورِ حکومت میں امریکہ نے نہ صرف جنگ بندی کی کسی سنجیدہ کوشش کی حمایت سے گریز کیا بلکہ اسرائیل کی ہر ممکن پشت پناہی جاری رکھی۔ ان پالیسیوں نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی، جس کے نتیجے میں غزہ میں ایک المناک انسانی بحران پیدا ہوا۔

 

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اب تک 56,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی ہے۔ زخمیوں کی تعداد 132,000 سے زائد ہے، جب کہ 92 فیصد رہائشی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس تباہی کو ممکنہ جنگی جرم، نسل کشی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

 

ایسے میں صدر ٹرمپ کی یکطرفہ اسرائیل نوازی اور غزہ کے قتلِ عام پر مجرمانہ خاموشی، اُن کی نوبل امن انعام کے لیے اہلیت پر نہ صرف ایک سنگین سوالیہ نشان ہے بلکہ عالمی ضمیر کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔

 

4۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے:

جون 2025 میں، صدر ٹرمپ کی نوبل امن انعام کے لیے پاکستان کی جانب سے نامزدگی کے فوراً بعد، عالمی میڈیا میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ امریکہ نے ایران اور عراق کے درمیان واقع مبینہ ایٹمی تنصیبات کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ اس حملے کی نوعیت، وقت، اور تفصیلات غیر واضح رہیں، لیکن جس بات نے دنیا کو سب سے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھی کہ اگر ان حملوں میں واقعی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، تو اس کے نتیجے میں ہونے والی تابکار شعاعوں (radiation) کی ممکنہ تباہی کا دائرہ صرف ایران یا عراق تک محدود نہ رہتا۔

 

ماہرین کے مطابق اگر ریڈیائی اثرات پھیلے ہوتے تو اس کے شدید نقصانات پورے خطے میں، بشمول ترکی، افغانستان، پاکستان، خلیجی ریاستوں، اور وسط ایشیا تک محسوس کیے جاتے۔ ان اثرات سے لاکھوں انسان متاثر ہوتے، زمینیں غیر آباد ہوتیں، پانی کے ذخائر آلودہ ہو جاتے، اور عالمی ماحولیاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا۔

 

ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو قیادت کسی جوہری ملک پر حملے کا خطرہ مول لے، وہ نوبل امن انعام کی حقدار کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا بین الاقوامی مشاورت کے بغیر ایسی کارروائیاں انسانیت کو اجتماعی خطرے میں نہیں ڈالتی؟ اور اگر ایسی قیادت کو نوبل انعام دیا جائے، تو کیا دنیا کو یہ پیغام نہیں ملے گا کہ جنگی طاقت ہی امن کا نیا معیار ہے؟

 

نوبل امن انعام کا بنیادی فلسفہ بین الاقوامی ہم آہنگی، تنازعات کے پرامن حل، اور افواج و اسلحے کے استعمال میں کمی پر مبنی ہے۔ الفریڈ نوبل نے اپنی 1895 کی وصیت میں لکھا کہ یہ انعام اُس شخص کو دیا جائے:

 

“who shall have done the most or the best work for fraternity between nations, for the abolition or reduction of standing armies and for the holding and promotion of peace congresses.”

(جس نے اقوام کے درمیان بھائی چارے کے فروغ، افواج کو ختم یا کم کرنے، اور امن کانفرنسوں کے قیام و ترویج کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کیا ہو۔)

 

نوبل نے اپنی وصیت میں اس انعام کو اُن شخصیات کے لیے مخصوص کیا تھا جو اقوام کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دیں، افواج کے خاتمے یا کمی کے لیے کام کریں، اور امن کانفرنسوں کو منظم و مؤثر بنائیں۔ ایسے میں اگر کسی ایسی قیادت کو نامزد کیا جائے جو تنازعات کو ہوا دے، ایٹمی خطرات کو بڑھائے، اور فوجی کارروائیوں کو سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کرے، تو یہ اقدام نوبل فلسفے کی تضحیک کے مترادف ہے۔

(ختم شُد)

0 Comment

14 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔