Home
پبلشنگ کی تاریخ: 29 اکتوبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 1 گھنٹے 5 منٹ (اب تک 6 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کی 500 ایکڑ زمین کہاں گئی؟


ماڈل ٹاؤن لاہور کی زمین 1921 سے 1924 کے درمیان مختلف مرحلوں میں خریدی گئی۔ ابتدا 1921 میں ہوئی جب ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد دیوان کھیم چند، شیخ عبدالقادر، اور مہیتا سنگھ پر مشتمل ابتدائی کمیٹی نے زمین کے حصول کا عمل شروع کیا۔
یہ زمین زیادہ تر ستو کٹل، کالا کھتری، چوپڑہ اور ریڑہ کے دیہاتوں اور رکھ کوٹ لکھپت کے جنگلات سے حاصل کی گئی تھی، جس کا کل رقبہ اُس وقت تقریباً 1,963 ایکڑ اور تین کنال تھا۔
یہ اعداد و شمار باضابطہ طور پر پنجاب گورنمنٹ گزٹ (1924) اور ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے بائی لاز میں درج ہیں، جو رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز پنجاب کے تحت رجسٹر ہوئے تھے۔
تاہم بعد کے برسوں میں مختلف انتظامی عوامل کے باعث اس کا قابلِ استعمال رقبہ کم ہوتا گیا اور موجودہ ریکارڈ کے مطابق یہ تقریباً 1,463 ایکڑ رہ گیا۔
یہ کمی کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی تدریجی تبدیلیوں کا حاصل ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اُس وقت زمین 1,963 ایکڑ تھی اور آج ایل ڈی اے اور ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے ریکارڈ کے مطابق یہ 1,463 ایکڑ رہ گئی ہے تو آخر یہ 500 ایکڑ زمین کہاں گئی؟ اس بارے میں تحقیق ابھی جاری ہے، البتہ جو باتیں ابتدائی طور پر سمجھ میں آتی ہیں یا شواہد جن جانب اشارہ کرتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. پیمائش کے نظام اور اکائیوں میں فرق
ماڈل ٹاؤن لاہور کی زمین کی پیمائش برطانوی دور کے مقامی پیمائشی نظام میں درج ہوئی تھی، جیسے بیگھہ، کنال، مرلہ یا گولا۔
“گولا” ایک پرانی دیہی پیمائش کی اکائی تھی، یعنی وہ زمین جسے بیلوں کا جوڑا ایک دن میں ہل چلا سکتا تھا۔ ہر علاقے کی زمین کی ساخت مختلف ہونے سے ایک گولا کی مقدار بدلتی تھی، تاہم عموماً اسے ایک سے ڈیڑھ کنال زمین کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
اُس وقت ہر علاقے میں بیگھے یا کنال کی لمبائی چوڑائی ایک جیسی نہیں ہوتی تھی۔ کہیں ایک بیگھہ 4 کنال کا سمجھا جاتا، کہیں 5 کنال کا۔
جب حکومت نے سب کچھ ایکڑ میں بدلنے کا فیصلہ کیا تو ممکن ہے راؤنڈ آف (Round off) کی وجہ سے فرق آ گیا ہو۔
راؤنڈ آف کا مطلب ہے کسی عدد کو آسان بنانے کے لیے اس کا اعشاری حصہ چھوڑ کر قریب ترین پورا عدد لکھ دینا۔ مثلاً اگر زمین 1,962.7 ایکڑ ہو تو اسے 1,963 ایکڑ لکھا جاتا ہے، اور اگر 1,962.3 ایکڑ ہو تو اسے 1,962 ایکڑ لکھ دیا جاتا ہے۔
یوں ممکن ہے کہ پیمائش کی اکائیوں کے فرق اور ریکارڈ کی تبدیلی نے مجموعی رقبے میں کمی پیدا کی ہو، جو بعد میں سوسائٹی کے کل رقبے میں فرق کا باعث بنا ہو۔
2. دیہاتی سرحدوں کی اوورلیپنگ اور حدبندی کی درستگی
بعض دیہاتوں کی حدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں، جیسے ستو کٹل اور کالا کھتری یا ریڑہ اور رکھ کوٹ لکھپت۔
ان کے درمیان چند ایکڑ زمین بعض اوقات دونوں ریکارڈ میں شامل لکھی گئی، بعد میں حدود درست ہونے پر وہ رقبہ ایک طرف منہا کر دیا گیا۔
نتیجتاً کل رقبے میں معمولی کمی یا اضافہ ظاہر ہونے کو Overlap Boundaries کہا جاتا ہے۔
یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ اس قسم کی اوورلیپنگ اور بعد کی درستگیوں کے باعث کچھ حصے حتمی ریکارڈ میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں جس سے رقبے کی مجموعی کمی میں اضافہ ہوا ہو۔
3. انتظامی تبدیلیاں اور سرکاری تحویل میں جانے والی زمین
1947 کے بعد لاہور میں تیزی سے شہری پھیلاؤ شروع ہوا۔ ریلوے لائن کی توسیع، فیروزپور روڈ کی چوڑائی، اور لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ کے زیرِ انتظام انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے نتیجے میں ماڈل ٹاؤن کی بیرونی زمین کے کئی حصے سرکاری تحویل میں چلے گئے ہوں۔
ان میں سے کچھ قطعات محکمۂ ریلوے، واسا، اور بعد میں ایل ڈی اے کی تحویل میں آگئے ہوں، جن کی تصدیق 1960 اور 1970 کی دہائی کے Punjab Gazette Notifications سے ہوتی ہے۔
4. اندرونی تقسیم اور ناقابلِ فروخت رقبہ (Non-Saleable Land)
ماڈل ٹاؤن سوسائٹی نے 1950 کی دہائی میں اپنے ماسٹر پلان کے مطابق کئی بلاکس میں پارک، تعلیمی ادارے، عبادت گاہیں، اور کمیونٹی ایریاز مختص کیے۔
یہ تمام حصے سوسائٹی کے مجموعی رقبے کا حصہ تو رہے لیکن فروخت یا رہائشی استعمال کے لیے دستیاب نہ رہے۔
بعد میں سوسائٹی کے بعض حصوں کو سرکاری اداروں کے حوالے بھی کر دیا گیا، جیسے ماڈل ٹاؤن پارک، گورنمنٹ اسکول، اور ریلوے کوچنگ سینٹر۔ ممکن ہے اس وجہ سے سوسائٹی کے مجموعی رقبے میں کمی آئی ہو۔
5. ریونیو ریکارڈ اور تاریخی درستگی
1924 سے 1930 کے درمیان تیار ہونے والی Jamabandi اور Misl Haqiat ریکارڈز میں کئی مقامات پر “رکھ کوٹ لکھپت” اور “ستو کٹل” کی زمینوں کے اندراج ایک دوسرے سے اوورلیپ ہوتے ہیں۔
ان دوہری انٹریوں کی تصحیح 1950 کے بعد کے ریکارڈ میں کی گئی، جس کے نتیجے میں کئی کنال رقبہ منہا ہو گیا۔
یہی وہ دستاویزی فرق ہے جو بعد کے سالوں میں 1,963 ایکڑ سے 1,463 ایکڑ تک کی مجموعی کمی کے طور پر ظاہر ہوا۔
مزید یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جب فیروزپور روڈ اور ریلوے لائن کی توسیع ہوئی تو ماڈل ٹاؤن کی بیرونی زمین کے کچھ حصے ان منصوبوں کے ساتھ شامل ہو گئے ہوں گے۔
پھر جب سوسائٹی کے لیے یہ زمین خریدی جا رہی تھی تو اس وقت اس علاقے میں فصلوں کی کاشت کے لیے دستیاب پانی کے لیے ایک نالہ، جسے نالہ دئی کہا جاتا ہے، موجود تھا۔
یہ لاہور کے قدیم قدرتی آبی راستوں میں سے ایک تھا جو برطانوی دور میں جنوبی مضافات کی نکاسیٔ آب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
یہ ستو کٹل، کالا کھتری اور رکھ کوٹ لکھپت کے کھیتوں سے گزرتا ہوا موجودہ ٹاؤن شپ کی جانب بہتا تھا اور اُس وقت اس میں صرف بارشی اور زرعی پانی آتا تھا۔
1921 سے 1924 کے دوران ماڈل ٹاؤن کی زمین خریدتے وقت اسے ایک مفید برساتی نالہ سمجھا گیا جو آئندہ سوسائٹی کی زمین کی زرخیزی اور نکاسی دونوں کے لیے مددگار تھا۔
ممکن ہے کچھ زمین مستقبل میں اس نالے سے بہتر مصرف لینے کے لیے چھوڑی گئی ہو، مگر 1950 کے بعد شہر کے پھیلاؤ اور سیوریج نظام کی توسیع کے ساتھ یہی نالہ گندے پانی کا بہاؤ بن گیا۔
آج یہ ارفع کریم ٹاور کے عقب میں موجود ہے اور “ڈرین ڈی (Drain D)” کے نام سے واسا کے شہری نکاسی نظام کا حصہ ہے۔
۔۔۔ باقی آئندہ قسط میں
( یہ مضمون ماڈل ٹاؤن لاہور پر میری زیرِ طبع کتاب
The Birth of Model Town in Colonial Lahore
“برطانوی لاہور میں ماڈل ٹاؤن کا جنم” سے اخذ شدہ ہے۔
یہ کتاب بہت جلد رئیل اسٹیٹ تھنک ٹینک اور ویب پورٹل SyedShayan.com پر دستیاب ہو گی۔ اسی موضوع پر ایک جامع ڈاکومنٹری بھی ریفرنس کے لیے تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
اگر کوئی فرد یا ادارہ تاریخی دستاویزات، تحقیقی مواد یا تصویری ریکارڈ شیئر کرنا چاہے تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا، یہ مواد تحقیقی استناد اور علمی استفادے کے لیے نہایت قیمتی ہوگا۔
ماڈل ٹاؤن کے موجودہ یا سابقہ رہائشی حضرات اگر اس تاریخی کتاب یا ڈاکومنٹری کے لیے اپنی کوئی یاد، تصویر یا تاثرات شیئر کرانا چاہیں تو براہ کرم رابطہ کریں:
mail@syedshayan.com

1 Comment

1 Share

6 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟