Home
پبلشنگ کی تاریخ: 4 نومبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 41 منٹ 53 سیکنڈ (اب تک 14 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

ماڈل ٹاؤن لاہور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی خاتون آرکیٹیکٹ کے سوسائٹی سے متعلق انکشافات


پچھلی قسط کا آخری پیراگراف:
۔۔۔۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو زمین ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کو گورنمنٹ کی جانب سے ملی وہ تو قانونی طور پر Crown Estate تھی اور برٹش گورنمنٹ اس کی مالک تھی، تو پھر اس کا possession دیتے وقت ایک اسلامی اصطلاح ‘حیازت’ کا لفظ کاغذات میں کیوں استعمال ہوا؟
نئی قسط کا آغاز:
لفظ “حیازت” عربی الاصل ہے اور برصغیر میں اس کا مطلب “زمین پر قابض ہونے یا قبضہ حاصل کرنے کا قانونی حق” لیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی حکومت کے افسران نے ان اصطلاحات کو ختم نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے قوانین، مثلاً Land Revenue Act 1887 اور Land Alienation Act 1900 میں باقاعدہ قانونی تعریف کے ساتھ برقرار رکھا۔
اسی لیے جب ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کو زمین الاٹ ہوئی، تو اگرچہ وہ زمین Crown Estate یعنی برطانوی حکومت کی ملکیت تھی، اس کا قبضہ دینے کا عمل ریونیو زبان میں “حیازت دینا” کہلایا، کیونکہ یہ اصطلاح قبضہ برائے تصرف (possession for development/use) کو ظاہر کرتی تھی۔
یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ زمین کی ملکیت Crown Estate کے پاس تھی، انتقالِ حق ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کو دیا گیا، اور حیازت یعنی عملی قبضہ ترقیاتی کاموں کے لیے سوسائٹی کے حوالے کیا گیا۔ یہاں “حیازت” مذہبی نہیں بلکہ قانونی اصطلاح ہے جو اُس وقت کے ریونیو قوانین میں رائج تھی۔ 1923 میں دیا گیا قبضہ انتظامی اور ترقیاتی نوعیت کا تھا، ملکیتی نہیں۔ سوسائٹی کو زمین پر تعمیرات اور منصوبہ بندی کا حق ملا، مگر ملکیت بدستور حکومت کے پاس رہی۔ اسی لیے ریکارڈ میں اسے “Grant of Possession” کہا گیا، جو صرف قبضہ برائے تصرف تھا۔ بعد ازاں 1941 میں رجسٹری کے بعد یہی قبضہ قبضہ برائے ملکیت میں تبدیل ہوا۔
ماڈل ٹاؤن کے معاملے میں بھی جون 1922 میں گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد سوسائٹی کو ایک معقول رقم کے عوض زمین کی حیازت، یعنی قبضے کی باضابطہ سرکاری اجازت، عطا کی گئی۔ یہ حیازت دراصل ترقیاتی تصرف کے لیے تھی، ملکیتی منتقلی نہیں۔
یہ رقم کتنی تھی؟ اس کے لیے ہمیں ماڈل ٹاؤن لاہور پر پی ایچ ڈی کرنے والی خاتون آرکیٹیکٹ ڈاکٹر شمع عنبرین (Shama Anbrine) کے تحقیقی مقالہ (PhD thesis) سے رجوع کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر شمع عنبرین نے 2014 میں یونیورسٹی آف لیورپول، انگلینڈ سے آرکیٹیکچر میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کا تحقیقی مقالہ لاہور کے نوآبادیاتی دور کی منصوبہ بندی، تعمیرات اور سماجی ساخت پر ایک جامع مطالعہ ہے۔
وہ اپنے تحقیقی تھیسس “The Co-operative Model Town Society (Lahore): History, Planning and Development” میں ماڈل ٹاؤن کی زمین کی خریداری سے متعلق مالی تفصیلات پر لکھتی ہیں:
“سوسائٹی نے رکھ کوٹ لکھپت کے ریزروڈ فاریسٹ علاقے کی زمین حکومتِ پنجاب سے 400 روپے فی ایکڑ کے حساب سے حاصل کی، جس کا کل رقبہ 1963 ایکڑ تھا۔ زمین کی قیمت 7,85,200 روپے بنی، جبکہ درختوں کی علیحدہ قیمت 1,54,500 روپے مقرر ہوئی۔ یوں مجموعی رقم 9,39,700 روپے طے پائی، جو سوسائٹی نے حکومتِ پنجاب کے خزانے میں باضابطہ طور پر جمع کروائی۔”
ڈاکٹر شمع عنبرین مزید لکھتی ہیں کہ اس رقم کی ادائیگی دو مرحلوں میں ہوئی: پہلی زمین کی قیمت کے طور پر، اور دوسری محکمہ جنگلات کو درختوں کے معاوضے کے طور پر۔ وہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ چونکہ زمین جنگل کی نوعیت کی تھی، اس لیے سوسائٹی کو پورا جنگل خریدنا پڑا تاکہ رقبہ ایک ہی ملکیت میں آ سکے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ادائیگی کی تصدیق ریونیو ریکارڈ اور محکمہ جنگلات کے خطوط سے ہوتی ہے، اور یہ تمام مراحل جون 1922 میں گورنر پنجاب کی منظوری سے قبل مکمل ہو چکے تھے۔
انہوں نے اپنے ریسرچ تھیسس میں اس حوالے سے جو لکھا، وہ یہ ہے:
‏“The land was purchased in two distinct payments: one to the Revenue Department for the proprietary rights of the banjar qadim and forest land, and a second to the Forest Department for the compensation of standing timber. … Both payments were finalized and recorded before the Governor’s sanction on 27 June 1922. … The entire block had to be acquired as a single unit because of its classification as reserved forest, ensuring unified ownership for the Society. … Formal possession was transferred in June 1923, over a year after financial clearance and administrative approval.”
ڈاکٹر شمع عنبرین نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ نکتہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کی زمین کی خریداری دو الگ ادائیگیوں میں مکمل ہوئی: ایک ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو بنجر، قدیم اور جنگلاتی زمین کی ملکیت کے عوض، اور دوسری فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کو کھڑے درختوں کے معاوضے کے طور پر۔ ان کے مطابق “Both payments were finalized and recorded before the Governor’s sanction on 27 June 1922” یعنی مالی اور انتظامی تمام بنیادی مراحل گورنر کی 27 جون 1922 کی منظوری سے قبل مکمل کیے جا چکے تھے، جبکہ زمین کا رسمی قبضہ جون 1923 میں دیا گیا۔ تاہم، یہ امر محققانہ طور پر ثابت ہے کہ زمین کی مالی ادائیگیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں تھیں بلکہ یہ مختلف ادوار میں 1941 تک جاری رہیں، جب ماڈل ٹاؤن کی تجزیہ رجسٹری (Partition of Registry) مکمل ہوئی۔
جاری ہے۔۔۔ باقی آئندہ قسط میں۔
(یہ مضمون ماڈل ٹاؤن لاہور پر میری زیرِ طبع کتاب
‏The Birth of Model Town in Colonial Lahore
“برطانوی لاہور میں ماڈل ٹاؤن کا جنم”
سے اخذ شدہ ہے۔
یہ کتاب بہت جلد رئیل اسٹیٹ تھنک ٹینک اور ویب پورٹل SyedShayan.com پر دستیاب ہو گی۔
اسی موضوع پر ایک جامع ڈاکیومنٹری بھی ریفرنس کے لیے تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
اگر کوئی فرد یا ادارہ تاریخی دستاویزات، تحقیقی مواد یا تصویری ریکارڈ شیئر کرنا چاہے تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا۔
یہ مواد تحقیقی استناد اور علمی استفادے کے لیے نہایت قیمتی ہوگا۔
ماڈل ٹاؤن کے موجودہ یا سابقہ رہائشی حضرات اگر اس تاریخی کتاب یا ڈاکیومنٹری کے لیے اپنی کوئی یاد، تصویر یا تاثرات شیئر کرانا چاہیں تو براہِ کرم رابطہ کریں:
‏mail@syedshayan.com

1 Comment

2 Shares

14 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟