تحریر: سید شایان
کل مطالعے کا دورانیہ: 25 گھنٹے 56 منٹ (اب تک 32 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
ماڈل ٹاؤن لاہور کا ماسٹر پلان تیار کرنے والے ٹاؤن پلانر / آرکیٹکٹ کو 800 روپے معاوضہ دیا گیا تھا۔
پچھلی قسط 11 میں ہم نے یہ دیکھا کہ ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کو رکھ کوٹ لکھپت کے ریزروڈ فاریسٹ علاقے کی زمین جون 1922 میں ایک باقاعدہ مالی اور قانونی عمل کے تحت الاٹ ہوئی۔ اور حیازت (possession) کا عمل مکمل ہونے کے بعد اگلا مرحلہ تھا منصوبہ بندی (Planning) اور بنیادی خاکہ (Layout Design) کی تیاری۔
چنانچہ سوسائٹی نے فیصلہ کیا کہ اس منصوبے کا ڈیزائن کسی ایک فرد کے بجائے ایک اوپن مقابلے کے ذریعے منتخب کیا جائے اور اس کے لیے پورے ہندوستان کے ٹاؤن پلانرز اور آرکیٹیکٹ فرمز کے مابین ایک Comprehensive Urban Layout Design Competition کروایا جائے تاکہ بہترین ماسٹر پلان حاصل ہو۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے لاہور کے معروف انگریزی اخبارات، Civil & Military Gazette اور The Tribune میں اگست 1922 میں ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں ہندوستان بھر کے آرکیٹیکٹس اور ٹاؤن پلانرز کو ماڈل ٹاؤن لاہور کے لیے ماسٹر پلان ڈیزائن کرنے کی دعوت دی گئی۔ اور جیتنے والے کے لیے انعامی رقم 1200 روپے رکھی گئی۔
اشتہار میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ منصوبے کو Garden City Movement کے اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ لاہور کے مضافات میں ایک ایسی بستی بن سکے جو صحت مند، منظم اور قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہو۔
مقابلے میں پورے ہندوستان سے مجموعی طور پر 32 plans موصول ہوئے تھے، جو مختلف تخلصات (pseudonyms) کے تحت جمع کرائے گئے اور جنہیں 17 اور 18 دسمبر 1922 کو سوسائٹی کے دفتر واقع سر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ مال روڈ میں نمائش کے لیے رکھا گیا، جو اس وقت نئی نئی تعمیر ہوئی تھی۔ ان دو دنوں کے دوران سوسائٹی کے اراکین اور عام عوام کو منصوبے دیکھنے کی اجازت دی گئی، اور 17 دسمبر کو گورنر پنجاب سر ایڈورڈ میکلیگن نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور اپنی بے پناہ دلچسپی کا اظہار کیا۔
یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے پہلے ماسٹر پلان (1922–23) کو منتخب کرنے والی ججنگ کمیٹی کے ارکان یہ تین شخصیات تھیں:
1. سر گنگا رام، ریٹائرڈ چیف کنسلٹنگ انجینئر، حکومتِ پنجاب
2. ڈبلیو۔ جی۔ لوٹن، کنسلٹنگ آرکیٹیکٹ، PWD پنجاب
3. بیرسٹر دیوان کھیم چند، سیکریٹری، ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی
اس مقابلے کا مقصد صرف سوسائٹی کے لیے ایک نقشہ منتخب کرنا نہیں تھا بلکہ شہری منصوبہ بندی کے جدید اصولوں جیسے علاقہ بندی (Zoning)، سڑکوں کی ریڈیئل ترتیب (Radial Road Pattern)، مرکزی سبز خطہ (Central Green Core)، اور مخصوص مقاصد کے استعمال (Functional Land Use) کو لاہور کے جغرافیے اور آب و ہوا کے مطابق ڈھالنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔
اس مقابلے میں ججز نے کسی ایک خاکے کو مکمل طور پر منتخب کرنے کے بجائے ان چار نمایاں ڈیزائنوں کو شارٹ لسٹ کیا:
1. مسٹر جی۔ کے۔ تِرلوکےکر (بمبئی) کا “دل نگر”
2. مسٹر ایس۔ سی۔ پال (کلکتہ) کا “کامن سینس”
3. مسٹر این۔ ایل۔ ورما (الہ آباد) کا “جیوپٹر”
4. ڈاکٹر جے۔ بی۔ ساہنی (لاہور) کا “ڈیلما”
چاروں ڈیزائنز میں پیش کیے گئے اصول، تناسب اور جمالیاتی توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے انعامی رقم 1200 روپے چاروں میں برابر تقسیم کی گئی۔
ججز کی رائے میں ہر منتخب خاکے میں کچھ نہ کچھ نمایاں ڈیزائن اسٹرینتھ (Design Strength) موجود تھی۔ کسی میں سڑکوں کا ریڈیئل پیٹرن (Radial Road Network) زیادہ متوازن تھا، کسی میں زوننگ اور لینڈ یوز (Zoning and Land Use) کی وضاحت بہتر تھی، کسی میں گرین بیلٹس اور (Open Spaces) کا تناسب مثالی تھا، جبکہ کسی نے کلب، مارکیٹ اور کمیونٹی سینٹرز کے درمیان تعلق (Functional Relationship) کو زیادہ مؤثر انداز میں ترتیب دیا تھا۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ان چاروں پلانز کے فنکشنل، جمالیاتی اور انجینئرنگ پہلوؤں کو یکجا کر کے ایک Comprehensive Master Plan تشکیل دیا جائے۔
چنانچہ ججوں نے مسٹر این۔ ایل۔ ورما کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ ان چاروں نقشوں کی بہترین خصوصیات جیسا کہ ٹریفک موومنٹ (Traffic Movement)، رہائشی بلاکس کی پلاننگ، عوامی سہولیات کی جگہوں کا انتخاب، اور اوپن گرین بیلٹس کے ربط کو یکجا کر کے ایک جامع ماسٹر پلان تیار کریں۔ اس مقصد کے لیے سوسائٹی نے انہیں 300 روپے انعامی رقم کے علاوہ الگ سے مزید 500 روپے فیس ادا کی۔
مسٹر این۔ ایل۔ ورما نے چاروں پلانز کے Core Elements کو ایک مربوط شہری خاکے (Integrated Urban Framework) میں ضم کیا۔ اُن کا تیار کردہ حتمی ماسٹر پلان نہ صرف ایرگونومک اور فزیبلٹی اسٹینڈرڈز پر پورا اترتا تھا بلکہ اُس نے لاہور کے ممکنہ پھیلاؤ کے لیے ایک Precedent Model بھی قائم کیا۔ اُن کے پلان کو 1923 میں حکومتِ پنجاب نے باضابطہ طور پر منظور کیا۔
دوسرے الفاظ میں، جب ججوں نے مسٹر این۔ ایل۔ ورما (N. L. Verma) کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ تمام خاکوں کی بہترین خصوصیات کو یکجا کر کے ایک جامع ماسٹر پلان تیار کریں، تو دراصل یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اُن کا ڈیزائن “Jupiter” مقابلے میں پیش کیے گئے دیگر ڈیزائنوں جیسا کہ “Dilnagar”, “Common Sense”, اور “Dalma” میں سب سے زیادہ متوازن اور قابلِ عمل سمجھا گیا۔ ورما کے پلان میں ٹریفک کی روانی، رہائشی بلاکس کی ترتیب، عوامی سہولیات کے مقامات کا انتخاب، اور اوپن گرین بیلٹس کا آپس میں ربط ایک سائنسی اور جمالیاتی ہم آہنگی کے ساتھ پیش کیا گیا، جس نے اُن کے تصور کو باقی تمام ڈیزائنز پر فوقیت دلائی۔ اسی لیے تاریخی و تکنیکی طور پر مسٹر این۔ ایل۔ ورما ہی ماڈل ٹاؤن لاہور کے حتمی ماسٹر پلان کے خالق اور آرکیٹکٹ تسلیم کیے جاتے ہیں، کیونکہ موجودہ ماڈل ٹاؤن کا شہری ڈھانچہ، زوننگ، اور منصوبہ بندی بنیادی طور پر انہی کے تیار کردہ پلان پر مبنی ہے۔
یاد رہے، مسٹر نند لال ورما (Mr. Nand Lal Verma) الہ آباد کے ایک تربیت یافتہ آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر تھے۔ ان کا تیار کردہ ماسٹر پلان اُس زمانے کے شہری منصوبہ بندی کے تمام سائنسی تقاضوں پر پورا اترتا تھا، اور بعد ازاں یہی نقشہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے حتمی ماسٹر پلان کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
پلان میں 1960 ایکڑ اراضی پر 10 بلاکس (A سے J تک)، 1000 سے زائد رہائشی پلاٹس، اور مرکزی پارک، سکولز، کلبز، ہسپتال، مسجد، مندر اور گردوارہ جیسی سہولیات شامل تھیں۔
1923 میں حکومتِ پنجاب نے باضابطہ طور پر اس منصوبے کی منظوری دی۔ اور یوں لاہور میں شہری منصوبہ بندی (Urban Planning) اور آرکیٹیکچرل ڈیزائن کے اشتراک کی پہلی باقاعدہ مثال سامنے آئی۔
جبکہ بعض موّرخین یہ مثال کرشن نگر (اسلام پورہ) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کرشن نگر 1920 کی دہائی کے آغاز تک مکمل طور پر آباد ہو چکا تھا اور اُس وقت لاہور کی جدید شہری منصوبہ بندی کی نمایاں مثال سمجھا جاتا تھا۔ یک منزلہ قطار در قطار مکانات، verandahs، اور میونسپل بورڈ کے زیرِ انتظام نکاسی و صفائی کے منظم انتظامات نے اسے ایک کامیاب رہائشی اسکیم بنا دیا تھا اور اکثر ماڈل ٹاؤن کے منصوبے کے لیے اسے بطور مثال بھی پیش کیا گیا۔
1923 میں، ماسٹر پلان کی تکمیل کے بعد، سوسائٹی نے رہائشی گھروں کے ڈیزائن کے لیے ایک اور مقابلے کا اعلان کیا، جس میں انعامات 400، 300، اور 100 روپے رکھے گئے۔ اس مقابلے سے حاصل ہونے والے ڈیزائنز کو بنیاد بنا کر تقریباً 100 تیار شدہ پلانز کی ایک پیٹرن بک تیار کیا گیا، جو اراکین اپنی مرضی سے منتخب کر سکتے تھے۔
ماسٹر پلان کی منظوری کے فوراً بعد سوسائٹی کی باضابطہ رجسٹریشن کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ 1912 کے تحت 1924 میں ہوئی، اور اسی کے ساتھ ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہائشیوں اور ممبران کے استعمال کے لیے پہلی عمارت Gentlemen’s Club کا سنگِ بنیاد 11 اپریل 1924 کو گورنر پنجاب سر ایڈورڈ میکلیگن نے رکھا۔
(یاد رہے ماڈل ٹاؤن لاہور کے ماسٹر پلان کے مقابلے سے متعلق خبر The Civil and Military Gazette, Lahore کے شمارہ 19 مئی 1923 میں شائع ہوئی تھی۔ یہی خبر بعد میں World Garden Cities کی ویب سائٹ اور دیگر متعدد ذرائع میں بطور ماخذ (source citation) درج کی گئی ہے۔)
جاری ہے۔۔۔ باقی آئندہ قسط میں۔
(یہ مضمون ماڈل ٹاؤن لاہور پر میری زیرِ طبع کتاب
The Birth of Model Town in Colonial Lahore
“برطانوی لاہور میں ماڈل ٹاؤن کا جنم”
سے اخذ شدہ ہے۔
اس کتاب کی کچھ اقساط رئیل اسٹیٹ تھنک ٹینک اور ویب پورٹل SyedShayan.com پر دستیاب ہیں۔
اسی موضوع پر ایک جامع ڈاکیومنٹری بھی ریفرنس کے لیے تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
اگر کوئی فرد یا ادارہ تاریخی دستاویزات، تحقیقی مواد یا تصویری ریکارڈ شیئر کرنا چاہے تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا۔
یہ مواد تحقیقی استناد اور علمی استفادے کے لیے نہایت قیمتی ہوگا۔
ماڈل ٹاؤن کے موجودہ یا سابقہ رہائشی حضرات اگر اس تاریخی کتاب یا ڈاکیومنٹری کے لیے اپنی کوئی یاد، تصویر یا تاثرات شیئر کرانا چاہیں تو براہِ کرم رابطہ کریں:
mail@syedshayan.com
6 Comments
32 Views
ماڈل ٹاون لاہور تاریخی اہمیت کی حامل سوسائٹی ہے
much informative
Informative for new gens.
impressive