تحریر: سید شایان
کل مطالعے کا دورانیہ: 36 منٹ 32 سیکنڈ (اب تک 12 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
ماڈل ٹاؤن لاہور کی زمین کی قیمت وصول کر کے بھی حکومت نے اس کی رجسٹری 19 سال بعد کیوں کی؟
تاریخی و سرکاری ریکارڈ کے مطابق ماڈل ٹاؤن لاہور کے قیام کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کا سلسلہ ایک طویل اور تدریجی عمل تھا۔ 1922 میں گورنر پنجاب سر ایڈورڈ ڈگلس مکلیگن کی منظوری سے تقریباً 200 ایکڑ زمین ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی کے نام منتقل کی گئی۔ یہ منظوری “Governor-in-Council, Punjab” کے فیصلے کے تحت دی گئی اور منظوری کا عنوان سرکاری فائلوں میں تھا:
“Alienation of Crown Land near Kot Lakhpat, Lahore District.”
اس منظوری کے تحت فی ایکڑ قیمت 400 روپے (یعنی 50 روپے فی کنال) مقرر ہوئی، جیسا کہ اُس وقت کی فائلوں میں درج ہے۔ اس زمین کا بیشتر حصہ رکھ کوٹ لکھپت کے جنگل اور شکارگاہ میں واقع تھا، جو اُس وقت Reserved Forest Land کے زمرے میں آتا تھا۔
اگلے دو برسوں میں 1923 سے 1924 تک سوسائٹی کے ماسٹر پلان کا مقابلہ ہوا، جس میں گارڈن سٹی کے اصولوں کو اپنایا گیا، اور 1924 میں سوسائٹی کو کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ 1912 کے تحت باضابطہ رجسٹریشن ملی۔ اور اسی سال کے آخر میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ بھی شروع کر دی گئی۔
بعد کے برسوں میں سوسائٹی نے زمین میں توسیع کے لیے محکمہ مال، جنگلات، تعمیراتِ عامہ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے مسلسل مراسلت جاری رکھی۔ 1925 سے 1940 کے دوران زمین مختلف مرحلوں میں سوسائٹی کے نام منتقل ہوتی رہی۔ بالآخر کل رقبہ 1963 ایکڑ تک پہنچ گیا۔
یکم اپریل 1941 کو ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی کے نام پر تقریباً 1963 ایکڑ اراضی کی Transfer Deed حکومتِ پنجاب کی جانب سے باضابطہ طور پر تحریر و دستخط کی گئی، جس کے نتیجے میں سوسائٹی کو اس زمین کی قانونی ملکیت حاصل ہوئی۔
اس کے بعد 25 اپریل 1941 کو وہ تاریخی دن بھی آپہنچا کہ جب یہ دستاویز سب رجسٹرار لاہور کے دفتر میں باقاعدہ رجسٹر (Registered and Passed) کی گئی۔
یوں جون 1922 سے شروع ہونے والا یہ عمل 25 اپریل 1941 کو (لگ بھگ 18 سال 10 ماہ بعد) اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
اب یہاں کچھ سوالات ذہن میں اُٹھتے ہیں۔
1- جون 1922 میں جب سوسائٹی کو 200 ایکڑ زمین ملی، تو اس کی رجسٹری تقریباً 19 سال بعد کیوں کی گئی؟
2- کیا سوسائٹی نے اس کی مکمل قیمت حکومت کو فوراً ادا نہیں کی تھی؟ اور اگر نہیں، تو پھر 1923 میں ترقیاتی کام اور 1924 میں پلاٹس کی فروخت کس بنیاد پر ہوئی؟ جبکہ زمین کی رجسٹری 1941 میں مکمل ہوئی تھی۔
3- قانون تو یہ کہتا ہے کہ رجسٹری سے پہلے کوئی تعمیری یا تجارتی سرگرمی نہیں ہو سکتی۔ تو سوال اُٹھتا ہے کہ کس قانون یا انتظامی استثناء کے تحت ماڈل ٹاؤن سوسائٹی نے 18 سال پہلے ہی زمین پر ترقیاتی کام بھی کروا لیے، پلاٹوں کی خرید و فروخت بھی شروع کر دی، لیکن حقِ ملکیت رجسٹری اور میوٹیشن کی شکل میں سوسائٹی کے پاس نہ تھا۔
آئیے، یہ جانتے ہیں۔
جب ماڈل ٹاؤن سوسائٹی نے زمین حاصل کرنے کے لیے حکومت سے درخواست دی تو اُس وقت برطانوی پنجاب میں دو بڑے قانون لاگو تھے:
1- زمین کا حصول (Land Acquisition Act 1894)
2- کوآپریٹو اداروں کا قانون (Co-operative Societies Act 1912)۔
ان قوانین کے مطابق اگر کوئی منصوبہ عوامی فائدے یا سماجی بہتری کے لیے بنایا جائے، تو حکومت کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ سرکاری زمین (Crown Land) کسی تنظیم یا سوسائٹی کو دے سکتی ہے، لیکن اس کی رجسٹری (ملکیت کی منتقلی کا حتمی کاغذ) فوراً نہیں ہوتی تھی۔ پہلے حکومت صرف حیازت (قبضہ) دیتی تھی، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ زمین آپ کے استعمال / قبضے میں ہے، آپ یہاں تعمیر، منصوبہ بندی یا ترقیاتی کام کر سکتے ہیں، مگر ابھی آپ قانونی مالک نہیں بنے۔
یہی ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ہوا۔ جون 1922 میں گورنر پنجاب نے منظوری دی کہ یہ زمین ماڈل ٹاؤن کوآپریٹو سوسائٹی کو دی جا سکتی ہے، اور 1923 میں حکومت نے ایک معقول رقم کے عوض زمین کا قبضہ بھی سوسائٹی کو دے دیا۔ اس کے بعد سوسائٹی نے یہاں سڑکوں کی کھدائی، گلیوں کی نقشہ بندی، پانی و نکاسی کا نظام اور پلاٹس کی پیمائش جیسے کام شروع کر دیے۔
تاہم حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ جب تک تمام رقم سوسائٹی ادا نہ کر دے اور منصوبے کی باقاعدہ منظوری نہ مل جائے، زمین کی رجسٹری مکمل نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ رجسٹری بعد میں، 1941 میں ہوئی۔ مگر 1923 کے بعد سوسائٹی کو مکمل طور پر یہ حق حاصل تھا کہ وہ زمین استعمال کرے، تعمیرات کرے اور ممبران کو پلاٹس بیچے، الاٹ کرے۔ اور اس سب کی بنیاد تھی ‘حیازت’
اسلامی فقہ میں حیازت کا مطلب ہے کسی ایسی مباح چیز کو اپنے قبضے میں لینا جو کسی کی ملکیت نہ ہو۔
یعنی جو شخص کسی بے مالک چیز پر قبضہ کر لیتا ہے، وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ اسے فقہی قاعدہ “مَن حازَ مَلِکَ” کہا جاتا ہے۔ مثلاً دریا سے مچھلی پکڑنا، عام چراگاہ سے گھاس کاٹنا، جنگل سے لکڑیاں یا پھل جمع کرنا، یا کسی ویرانے میں شکار کرنا. یہ سب اموالِ مباحہ کی مثالیں ہیں جن پر سب کو حق حاصل ہے، مگر جس نے پہلے قبضہ کر لیا، وہ مالک بن گیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ جو زمین ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کو گورنمنٹ کی جانب سے ملی وہ تو قانونی طور پر Crown Estate تھی اور برٹش گورنمنٹ اس کی مالک تھی، تو پھر اس کا possession دیتے وقت ایک اسلامی اصطلاح ‘حیازت’ کا لفظ کاغذات میں کیوں استعمال ہوا؟
جاری ہے۔۔۔ باقی آئندہ قسط میں۔
یہ مضمون ماڈل ٹاؤن لاہور پر میری زیرِ طبع کتاب
The Birth of Model Town in Colonial Lahore
“برطانوی لاہور میں ماڈل ٹاؤن کا جنم” سے اخذ شدہ ہے۔
یہ کتاب بہت جلد رئیل اسٹیٹ تھنک ٹینک اور ویب پورٹل SyedShayan.com پر دستیاب ہو گی۔ اسی موضوع پر ایک جامع ڈاکیومنٹری بھی ریفرنس کے لیے تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
اگر کوئی فرد یا ادارہ تاریخی دستاویزات، تحقیقی مواد یا تصویری ریکارڈ شیئر کرنا چاہے تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا۔ یہ مواد تحقیقی استناد اور علمی استفادے کے لیے نہایت قیمتی ہوگا۔
ماڈل ٹاؤن کے موجودہ یا سابقہ رہائشی حضرات اگر اس تاریخی کتاب یا ڈاکیومنٹری کے لیے اپنی کوئی یاد، تصویر یا تاثرات شیئر کرانا چاہیں تو براہِ کرم رابطہ کریں:
mail@syedshayan.com
1 Comment
12 Views
good| nice well