Home
پبلشنگ کی تاریخ: 15 نومبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 11 گھنٹے 6 منٹ (اب تک 26 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

پنجاب میں شہروں کی زوننگ تبدیل کر کے دولت بنانے کا نیا کھیل: کس کو فائدہ، کس کو نقصان؟

ریذیڈنشل علاقوں کو کمرشل میں بدلنے کا کاروبار

کون فیصلے کر رہا ہے؟ کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟

اس کا شہر پر، ٹریفک پر، اور عام شہری پر کیا اثر ہو رہا ہے

ایک رہائشی علاقے میں سرکاری و کمرشل دفاتر کا قائم ہونا یا تعلیمی اداروں کا کھل جانا زوننگ کی ناکامی کی نشانی ہے۔


 

میں گارڈن ٹاؤن لاہور کے ابوبکر بلاک میں رہائش پذیر ہوں۔ چند سال پہلے تک یہ ایک مکمل رہائشی علاقہ تصور ہوتا تھا، پُرسکون، صاف، محفوظ اور رہنے کے قابل۔ مگر پھر ایک دن میرے گھر سے صرف چار گھروں کے فاصلے پر حکومت کا Excise and Taxation Office کھول دیا گیا۔ اس کے بعد سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم مستقل ہو گیا، لوگوں کی لائنیں لگنے لگیں، بنچوں پر بیٹھے ایجنٹوں نے پوری سڑک کو دفتر میں بدل دیا، اور آس پاس کے گھروں میں مکینوں کا داخل ہونا بھی مشکل ہو گیا۔


 

اس سے قبل کچھ کال سینٹرز اور میرج ہالز بھی یہاں قائم ہو چکے تھے یوں اس علاقے کی پرسکون، ہوادار رہائشی فضا اور گھنے درخت جو کبھی اس کی پہچان تھے، بتدریج ختم ہوتے گئے اور ان کی جگہ لوگوں کے ہجوم اور گاڑیوں کے ہر وقت کے شور شرابے نے لے لی۔


 

شہر کے ایک انتہائی قیمتی رہائشی علاقے میں تجارتی سرگرمیوں کا فائدہ نہ مجھے ہوا، نہ میرے پڑوسیوں کو۔ یہ فائدہ صرف اُن دو چار لوگوں کا ہوا جنہوں نے رہائشی علاقے میں اپنے گھر کمرشل سرگرمیوں کے لیے کرائے پر دیے۔ جنہیں یہیں رہنا تھا ان کو اب کئی مسائل کا سامنا تھا۔


 

لیکن سوال یہ ہے کہ کرایہ داروں کو کمرشل سرگرمیاں کرنے کی اجازت شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے آخر کیسے دے دی، جبکہ میرا گھر اور آس پاس کے تمام گھر واضح طور پر شہر کے رہائشی زون میں آتے ہیں۔


 

ممکن ہے کچھ لوگ یہ پوچھیں کہ رہائشی زون کیا ہوتا ہے؟ تو آئیے اسے سمجھتے ہیں۔


 

زوننگ کا بنیادی مطلب ہے کہ کسی شہر یا علاقے کو نقشے پر تقسیم کر کے یہ فیصلہ کرنا کہ:


 

  • کہاں صرف گھر بن سکتے ہیں
  • کہاں دکانیں اور پلازے بن سکتے ہیں
  • کہاں فیکٹری لگ سکتی ہے
  • کہاں پارک، گرین ایریا یا اوپن اسپیس لازمی رہے گی
  • کہاں اسکول، اسپتال، مسجد یا پبلک عمارت بنے گی
  • اور کہاں ٹرانسپورٹ کا مرکزی نیٹ ورک، بس روٹس، سڑکیں اور ٹریفک کوریڈورز بنیں گے تاکہ شہر منظم، محفوظ اور قابلِ رہائش رہے۔

یہ تقسیم قانونی ہوتی ہے اور اسے شہر کا Land Use Plan یا Zoning Code کہا جاتا ہے۔


 

دنیا کے زیادہ تر میٹروپولیٹن شہروں میں زمین کو پانچ سے سات بنیادی زوننگ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ شہر منظم طریقے سے ترقی کرے اور رہائشی، کمرشل اور ماحولیات کا توازن برقرار رہے۔ ان میں عام طور پر شامل ہوتے ہیں:


 

  1. ریذیڈنشل زون
  2. کمرشل زون
  3. انڈسٹریل زون
  4. گرین یا اوپن اسپیس زون
  5. پبلک اور کمیونٹی زون

بعض بڑے شہروں میں اس کے ساتھ مکسڈ یوز اور اسپیشل پلاننگ ڈسٹرکٹ بھی شامل کیے جاتے ہیں، مگر بنیادی ڈھانچہ دنیا بھر میں تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے، جو شہری ترقی، ٹریفک کے بوجھ کے حساب سے انفراسٹرکچر کی تقسیم اور مجموعی نظم و ضبط کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔


 

**زوننگ کا بنیادی مقصد کیا ہے؟**


 

ہر بڑے شہر میں زوننگ اس لیے کی جاتی ہے تاکہ شہر منظم، متوازن اور محفوظ طریقے سے ترقی کرے اور ہر جگہ وہی تعمیر ہو جو اس علاقے کے لیے موزوں ہو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ رہائشی محلوں میں سکون برقرار رہے، کمرشل زون میں مناسب سڑکیں اور پارکنگ ہوں، اور فیکٹریاں آبادی سے دور رکھی جائیں۔ اسی طرح پارکس، گرین بیلٹ اور اوپن اسپیس محفوظ رہیں تاکہ شہریوں کو صاف ماحول اور کھلی جگہیں میسر رہیں۔ زوننگ ٹریفک کے بوجھ، سیوریج، بجلی اور پانی کے نظام کو متوازن رکھتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ بغیر قانونی منظوری کے کوئی بھی مالک اپنی جگہ کے استعمال کو تبدیل نہ کر سکے۔ سادہ لفظوں میں، زوننگ شہر کو بے ترتیبی، افراتفری اور غیر منصوبہ بند تعمیرات سے بچانے کا بنیادی نظام ہے۔


 

(یاد رہے کہ ہر شہر میں زوننگ سے پہلے ایک باقاعدہ ماسٹر پلان بنایا جاتا ہے، جو 20 سے 25 سال کے لیے طے شدہ ہوتا ہے۔ اسے Statutory Master Plan یا Approved Master Plan کہا جاتا ہے اور دورانِ نفاذ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اسی پلان کے تحت پورے شہر کی زوننگ، زمین کا استعمال اور ترقی کا نقشہ طے ہوتا ہے۔)


 

**زوننگ کی تبدیلی سے فائدہ کس کو ہوتا ہے اور نقصان کس کو؟ اصل بات جو عوام نہیں سمجھتے**


 

زوننگ کی تبدیلی اس علاقے کے پراپرٹی مالکان کو وقتی خوشی ضرور دیتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اب ان کا گھر کروڑوں میں بکے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس “Change of Land Use” کا اصل فائدہ صرف چند مخصوص افراد کو ملتا ہے، جیسے ترقیاتی اداروں کے کچھ ملازمین جن کے پاس ہر پراپرٹی کی فائل ہے اور وہ پہلے سے پراپرٹی مالکان سے لین دین طے کر لیتے ہیں، منتخب ڈویلپرز، پراپرٹی گروپس اور مقامی سیاسی افراد،


 

جبکہ اس زوننگ سے نقصان پورے علاقے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک رہائشی علاقہ جب “ریذیڈنشل زون” سے “کمرشل زون” میں تبدیل ہوتا ہے تو ابتدا میں قیمت بڑھتی ہے، مگر چند سال بعد ٹریفک کے دباؤ، شور، پارکنگ کی تباہی، سیوریج کے بیٹھ جانے، انفراسٹرکچر پر اضافی لوڈ اور گرین ایریاز کی تباہی پورے علاقے کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔


 

ہاں، صرف مین روڈ پر واقع پراپرٹی کی قیمت ضرور بڑھتی ہے، لیکن اندرونی سڑکوں اور گلیوں کے گھروں کی قدر تیزی سے گرنے لگتی ہے۔ ان کے خریداروں کی تعداد محدود ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی پراپرٹی کے اصل خریدار بھی اب وہی ہوتے ہیں جو مین روڈ پر فرنٹ کی پراپرٹی کے مالکان ہوتے ہیں، اور وہی لوگ جو کبھی قیمت بڑھنے پر خوش ہوتے تھے، چند ہی برسوں میں اس تبدیلی کے سب سے بڑے متاثرہ بن جاتے ہیں۔


 

**ہمارے ہاں زوننگ کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟**


 

پنجاب خصوصاً لاہور میں زوننگ کا عمل اپنی شہری منصوبہ بندی کی اصل حیثیت کھو کر ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ’’Change of Land Use‘‘ کے نام پر رہائشی گھروں کو کمرشل، گرین بیلٹس کو کنکریٹ، اور اسکول و اسپتال کی زمینوں کو پلازوں میں بدلا جا رہا ہے۔ اس عمل کو Zoning Manipulation اور Unregulated Conversion کہا جاتا ہے، جس سے ماسٹر پلان غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور شہر کی ساخت بگڑتی چلی جاتی ہے۔


 

رہائشی پلاٹس کو کمرشل قرار دیتے ہی ان کی قیمت چند دنوں میں دو سے تین گنا بڑھ جاتی ہے، جس سے Speculative Development تو بڑھتی ہے مگر شہری ضروریات پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں زمین وہی رہتی ہے، مگر اس کی درجہ بندی بدلتے ہی پورا مارکیٹ ڈائنامکس بدل جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہر ایک منظم نظام کے بجائے بے ترتیب اور لالچ پر مبنی Real Estate Expansion کا شکار ہو گئے ہیں۔


 

اصل مسئلہ یہ ہے کہ زوننگ کی تبدیلی کے فیصلے عوامی سطح پر نہیں ہوتے۔ نہ کھلی سماعت (open hearing)، نہ اہلِ محلہ کی رائے، نہ پلاننگ کے اصول۔ پورا اختیار چند افراد پر مشتمل ’’Land Use Conversion Committee‘‘ کے پاس ہوتا ہے، جس کے پانچ سات لوگ پورے شہر کی قسمت کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ درخواست فائل بنتی ہے، رسمی نوٹ لگتا ہے، دستخط ہوتے ہیں اور ایک رہائشی زون کمرشل میں بدل جاتا ہے۔ عوام کو صرف تب خبر ہوتی ہے جب ریوڑیاں آپس میں بانٹی جا چکی ہوتی ہیں۔


 

**اس نظام کو درست کرنے کے لیے کمرشلائزیشن کا اختیار شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے واپس لینا ہو گا۔**


 

پنجاب میں زوننگ کے بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کے لیے سب سے پہلے وہ قانونی فریم ورک نافذ کرنا ہوگا جو دنیا کے بڑے اور منظم شہروں میں بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے۔ اس میں یکساں زوننگ ضابطہ، Unified Zoning Code، عوامی سماعت، ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ، اور زمین کے استعمال سے متعلق ایک خود مختار اتھارٹی جسے Independent Land Use Authority کہتے ہیں شامل ہوتی ہے۔


 

ترقی یافتہ ممالک میں زوننگ کی کسی بھی تبدیلی کی منظوری تب تک نہیں دی جاتی جب تک دو بنیادی مراحل مکمل نہ ہو جائیں۔ پہلا مرحلہ عوامی اطلاع کا ہوتا ہے اور دوسرا مرحلہ کھلی سماعت کا، جہاں اس علاقے کے رہنے والے، وہاں کاروبار کرنے والے افراد اور متعلقہ شہری تنظیمیں آ کر اپنی رائے، اعتراضات اور تجاویز پیش کرتی ہیں۔ یہ شفافیت اس لیے ضروری سمجھی جاتی ہے کہ زوننگ کی ہر تبدیلی براہ راست شہری زندگی، ٹریفک، ماحول اور علاقے کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔


 

نیویارک، لندن، استنبول اور دبئی جیسے بڑے شہروں میں زمین کے استعمال میں تبدیلی یعنی Land Conversion ایک معمولی عمل نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی ترمیم تب ہی منظور کی جاتی ہے جب مکمل تحقیق یہ ثابت کر دے کہ اس تبدیلی سے علاقے کا ٹریفک متاثر نہیں ہوگا، پارکنگ کی گنجائش پوری ہے، گرین بیلٹس محفوظ رہیں گی اور بنیادی ڈھانچے پر کوئی غیر ضروری بوجھ نہیں پڑے گا۔


 

یہ فیصلہ بھی کسی ایک ادارے کا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ شہری منصوبہ بندی بورڈ بیٹھتا ہے جس میں ٹاؤن پلانرز، ماہرینِ ماحول، قانونی ماہرین، انجینئرز اور علاقے کے نمائندے شریک ہوتے ہیں، اور سب کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔


 

پنجاب کے تمام شہروں میں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ ہر مجوزہ تبدیلی پہلے عوام کے سامنے بذریعہ میڈیا پیش ہو، پھر تکنیکی ماہرین کے پینل کے سامنے آئے، اور آخر میں شہر کی مین سٹی کونسل (عوامی نمائندوں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اس ادارے کے قیام کی ضرورت پر میں جلد لکھوں گا) اسے منظور کر کے ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کرے۔ کمرشلائزیشن کا فیصلہ کرنے کا اختیار ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے پاس ہونا ہی نہیں چاہئیے۔


 

جب تک زوننگ کا عمل واضح قانون، شفاف طریقہ کار، اور شہریوں کی باقاعدہ شمولیت کے بغیر چلتا رہے گا، شہر کمزور ہی رہیں گے اور طاقت چند بااثر ہاتھوں میں سمٹی رہے گی۔

0 Comment

11 Shares

26 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟