Home
پبلشنگ کی تاریخ: 13 نومبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 51 منٹ 0 سیکنڈ (اب تک 16 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی ترغیب کے لیے نیا خطرہ گارنٹیڈ ریٹرن پراجیکٹس

▪️گارنٹیڈ ریٹرن پراجیکٹس جن میں ڈویلپرز خریدار کو اپارٹمنٹ، آفس یا شاپ کی بکنگ کروانے پر %15 سے %18 سالانہ منافع دیتے ہیں۔

▫️ایسی اسکیموں میں سب سے زیادہ نقصان اوورسیز پاکستانیوں اور ریٹائرڈ پنشنرز کو ہوتا ہے۔

▫️اس آرٹیکل کے آخر میں 14 سوالات کی چیک لسٹ سنبھال کر رکھئے یہ آپ کی انوسٹمنٹ کو محفوظ رکھنے میں مدد کرے گی۔

پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں ایک نیا جملہ عام ہو چکا ہے “گارنٹیڈ ریٹرن” یا “کیش بیک اسکیم”۔


 

ہمارے ملک کے چند نامور ڈویلپرز نے مارکیٹ سے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے یہ نئی روش اختیار کی ہے کہ وہ بلڈنگ پراجیکٹس میں سرمایہ کاروں کو 12 سے 18 فیصد سالانہ منافع دیتے ہیں۔

یہ دعوے بظاہر پرکشش لگتے ہیں، مگر پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی اصل حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔


 

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کمرشل پراپرٹی کی حقیقی Yield سات سے آٹھ فیصد جبکہ رہائشی املاک کی Yield پانچ سے چھ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایک نامکمل عمارت بغیر کرایہ دار کے آخر 12، 15 یا 18 فیصد Guaranteed Return کہاں سے دے سکتی ہے؟

▪️یہ کس طرح کے پراجیکٹس ہیں؟

1۔ مثال کے طور پر ایک مکسڈ یوز منصوبہ میں جس میں ریٹیل شاپس، آفس اسپیسز، اور رہائشی اپارٹمنٹس شامل ہیں۔ ڈویلپر نے اس پراجیکٹ کے لیے 15 فیصد سالانہ گارنٹیڈ کیش بیک کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی اگر کوئی خریدار یونٹ خرید لے تو کمپنی اسے مخصوص مدت تک سالانہ 15 فیصد منافع دے گی، چاہے یونٹ کرائے پر دیا جائے یا نہیں۔


 

2۔ یا ایک ہوٹل سویٹ ماڈل یا صرف کمرشل Retail Only یہ زیادہ خطرناک شکل ہے۔ اس میں خریدار کو ایک مخصوص یونٹ جیسے شاپ یا ہوٹل سویٹ فروخت کیا جاتا ہے، اور ڈویلپر کہتا ہے کہ ہم اسے خود آپریشن میں رکھیں گے (مثلاً بطور ہوٹل روم یا شوروم چلائیں گے) اور آپ کو ہر مہینے یا سال 10 تا 20 فیصد ریٹرن دیں گے۔ یہاں عملاً خریدار مالک نہیں بلکہ سرمایہ کار بن جاتا ہے، اور ریٹرن صرف اس وقت جاری رہتا ہے جب تک نئے یونٹس فروخت ہوتے رہیں یا پراجیکٹ کے فنڈز بچتے رہیں۔


 

3۔ یا پھر سروسڈ اپارٹمنٹ یا شیئرڈ اونر شپ ماڈل اس میں ایک ہی اپارٹمنٹ کو کئی خریداروں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہر خریدار کو مخصوص مدت کے لیے استعمال یا ریٹرن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ملکیت مشترک اور آپریشن ڈویلپر کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لیے اکثر اوقات نہ منافع ملتا ہے نہ قبضہ، صرف وعدے باقی رہ جاتے ہیں۔


 

▪️مالیاتی ماڈل منافع کہاں سے آتا ہے؟

ان منصوبوں میں منافع حقیقی کرائے سے نہیں بلکہ نئے خریداروں کے پیسے سے دیا جاتا ہے۔ یہ ایک Ponzi-style cash flow model ہوتا ہے، جو تب تک چلتا ہے جب تک مسلسل نئی بکنگ آتی رہے۔


 

جیسے ہی نئی بکنگ رکتی ہے، پورا نظام Domino Effect کی طرح گرنا شروع ہو جاتا ہے پہلے ادائیگیاں رک جاتی ہیں، پھر پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہوتا ہے، اور آخر میں دفاتر بند ہو جاتے ہیں۔


 

▪️پاکستانی قانون کے مطابق ان اسکیموں کی حیثیت

پاکستانی قانون کے مطابق کوئی بھی نجی کمپنی عوام سے پیسہ لے کر Guaranteed Profit کا وعدہ نہیں کر سکتی جب تک SECP سے اجازت نہ لے۔ SECP Act 1997 اور Companies Act 2017 ایسے وعدوں کو غیر قانونی اور غیر محفوظ قرار دیتے ہیں۔


 

▪️اگر پھر بھی انویسٹ کرنا چاہتے ہیں تو…

ڈویلپر سے یہ 14 سوالات ضرور پوچھیں اگر جواب تسلی بخش نہ ہوں تو انویسٹمنٹ نہ کریں۔


 

  1. آپ 12، 15 یا 18% منافع کس آمدنی سے دیں گے؟
  2. کتنے سال تک؟ بعد میں کیا ہوگا؟
  3. کیا یہ گارنٹی تحریری معاہدے میں شامل ہے؟
  4. منافع کمپنی اکاؤنٹ سے دیں گے یا نئی بکنگ سے؟
  5. اگر نئی بکنگ رک جائے تو کیا ریٹرن جاری رہے گا؟
  6. کیا اس اسکیم کے لیے SECP کی منظوری موجود ہے؟
  7. کیا کوئی Insurance یا Guarantee Bond موجود ہے؟
  8. کیا رقم Escrow Account میں رکھی جائے گی؟
  9. پراجیکٹ کی موجودہ تعمیراتی Progress کیا ہے؟
  10. کیا کوئی پچھلا پراجیکٹ مکمل کیا ہے؟
  11. سرمایہ کار کے لیے Exit Policy کیا ہے؟
  12. اصل Rental Yield کیا ہے؟
  13. اگر پراجیکٹ اتنا منافع بخش ہے تو بینک سے قرض کیوں نہیں لیتے؟
  14. زمین کی اصل ملکیت کے دستاویزات موجود ہیں؟

یہ سوالنامہ آپ کی سرمایہ کاری کو فراڈ اور نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

0 Comment

11 Shares

16 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟