Home
پبلشنگ کی تاریخ: 30 اکتوبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 0 منٹ 24 سیکنڈ (اب تک 8 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

پنجاب میں بڑے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کے بعد زمینوں اور جائیدادوں پر قابض بڑے قبضہ مافیا کے خلاف بڑا آپریشن شروع ہونے جا رہا ہے

▫️'سی سی ڈی' کی طرز پر 'پی پی پی اے' بھی قائم کر دی گئی

آج 31 اکتوبر کو لاہور میں پنجاب میں جائیدادوں کے حقوق کے تحفظ کا نیا آرڈیننس وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیرِ صدارت صوبائی کابینہ نے منظور کر لیا۔

قبضہ مافیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کرتے ہوۓ خاتون وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمین اور جائیداد کے اصل مالکان کا حق اب کوئی نہیں چھین سکے گا، اور حکومت ہر شہری کی ملکیت کا تحفظ یقینی بنائے گی۔

اس سے قبل خاتون وزیراعلیٰ نے صوبے میں کرائم کنٹرول اتھارٹی (CCA) کے قیام کا اعلان کیا تھا، جس پر خاتون وزیراعلیٰ دعویٰ کرتی نظر آ رہی ہیں کہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں ستر فیصد کمی آئی ہے۔

اب نئے قانون کو جسے Punjab Protection of Ownership of Immovable Property Ordinance 2025 کہا گیا ہے، کافی بحث کے بعد منظور کیا گیا۔

اس تاریخی فیصلے کا مقصد صوبے میں زمینوں اور جائیدادوں کے حقیقی مالکان کے حقوق کا تحفظ اور قبضہ مافیا کا مکمل خاتمہ ہے۔

وزیراعلیٰ مریم نواز نے اجلاس کے دوران کہا کہ "جس کی ملکیت، اسی کا حق، ماں جیسی ریاست ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ کھڑی ہے۔" انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کا مقصد عوام کو ان کی زمینوں کا تحفظ دینا اور طاقتور طبقے کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا مستقل خاتمہ ہے۔

اس آرڈیننس کے تحت ہر ضلع میں ضلعی تنازعات کے حل کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کریں گے۔ کمیٹی چھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور 30 دن کے اندر فعال ہو کر 90 دن کے اندر فیصلہ دینے کی پابند ہوگی۔ فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بنایا جائے گا جس کی سربراہی ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کریں گے، اور وہ بھی 90 دن میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔

فیصلہ آنے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر ناجائز قبضہ خالی کروایا جائے گا، اور کارروائی کو شفاف بنانے کے لیے اسے براہِ راست نشر کیا جائے گا۔ پورا نظام مکمل طور پر ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے تاکہ ہر کارروائی کا ریکارڈ محفوظ رہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ قانون زمینوں کے تنازعات کے فوری حل اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک انقلابی پیش رفت ہے جو برسوں سے زیرِ التوا مقدمات کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

درحقیقت پچھلے کئی ماہ سے پنجاب اسمبلی کے کئی ارکان اس بل کے حوالے سے اختلافات رکھتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ زمین اور جائیداد سے متعلق فیصلوں کا اختیار مقامی نمائندوں یا منتخب اسمبلی اراکین کو دیا جانا چاہیے تاکہ عوامی نمائندگی کے اصول کو تقویت ملے۔ ان اراکین نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ منتخب نمائندے اپنے علاقوں کے مسائل اور زمینی تنازعات کی نوعیت کو بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں ضلعی کمیٹیوں (District Dispute Resolution Committees) میں مرکزی کردار ملنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق ڈپٹی کمشنر کو سربراہی دینے سے فیصلہ سازی کا عمل دوبارہ افسر شاہی کے دائرے میں چلا گیا ہے، جس سے سیاسی نمائندگی کمزور پڑتی ہے۔ البتہ حکومت کا موقف یہ رہا کہ چونکہ زمین اور ریونیو سے متعلقہ فیصلے قانونی نوعیت رکھتے ہیں، اس لیے انہیں غیرجانبدار، انتظامی اور عدالتی تجربہ رکھنے والے افسران کے سپرد کرنا ہی زیادہ مؤثر اور شفاف طریقہ ہے۔ یہ اختلاف ابھی بھی بعض سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔

میری رائے میں ڈپٹی کمشنر صرف انتظامی افسر نہیں بلکہ اسے زمین اور ریونیو کے معاملات میں عدالت کے برابر اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ Land Revenue Act 1967 کے تحت ڈپٹی کمشنر بطور کلکٹر زمین کی ملکیت، انتقال، قبضے، لیز اور دیگر ریونیو جھگڑوں کے مقدمات سنتا ہے۔ وہ اسسٹنٹ کمشنر یا تحصیلدار کے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی سن سکتا ہے۔ اس کی اپنی عدالت بھی ہوتی ہے اور ریکارڈ میں غلطیوں کی درستگی یا سرکاری زمین پر ناجائز قبضے کے خلاف حکم جاری کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہے۔

برطانوی دورِ حکومت میں ڈپٹی کمشنر کو ایک ہی وقت میں انتظامیہ، عدلیہ اور مالیات تینوں شعبوں کا سربراہ سمجھا جاتا تھا۔ British India کے نظام میں اسے ضلعی حکومت کا محور مانا گیا تھا، جو کلکٹر آف ریونیو، مجسٹریٹ فرسٹ کلاس، اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے طور پر بیک وقت اختیارات استعمال کرتا تھا۔ زمین کے ریکارڈ، محصول، ٹیکس، زرعی تنازعات، قبضے اور کرایہ داری جیسے مقدمات کی ابتدائی سماعت اسی کی عدالت میں ہوتی تھی۔ بعض اوقات چھوٹے فوجداری مقدمات کی کارروائی بھی وہ خود کرتا تھا، جب کہ بڑے مقدمات اپیل کی صورت میں ہائی کورٹ یا چیف کورٹ پنجاب کو بھیجے جاتے تھے۔ اس طرح برطانوی ہندوستان میں ڈپٹی کمشنر نہ صرف انتظامی سربراہ بلکہ نیم عدالتی ادارہ بھی تھا، جس کا فیصلہ ضلعی نظم و نسق اور انصاف دونوں کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔

انہی عدالتی اختیارات کی وجہ سے اب اگر پنجاب حکومت نے نئے آرڈیننس میں ضلعی تنازعات کے حل کی کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کو دی ہے تو یہ قدم ایک احسن اور حقیقت پسندانہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف فیصلوں کی رفتار بڑھا سکتا ہے بلکہ ان میں انتظامی سمجھ بوجھ اور عدالتی توازن بھی پیدا کرے گا۔ اس سے عدالتی بوجھ کم ہوگا، زمینوں کے مقدمات میں برسوں کی تاخیر کم ہوگی، اور عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مؤثر اور فوری پلیٹ فارم میسر آئے گا۔

1 Comment

7 Shares

8 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟