Home
پبلشنگ کی تاریخ: 17 نومبر, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 11 گھنٹے 31 منٹ (اب تک 35 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

️آپ کے محلے کے موبائل ٹاور کا وہ پوشیدہ پہلو جسے ہم سب نظر انداز کر بیٹھے ہیں

عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں نظر آنے والے موبائل ٹاور صرف موبائل کمپنیوں کے ہوتے ہیں، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔


 

پاکستان میں اس وقت چار بڑی موبائل فون کمپنیاں کام کر رہی ہیں: جاز، زونگ، ٹیلی نار اور یوفون۔


 

ان کمپنیوں کے پھیلتے ہوئے سسٹم کو سہارا دینے کے لیے پاکستان بھر میں فعال ٹاورز کی مجموعی تعداد تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے۔


 

لیکن ان تقریباً پچاس ہزار ٹاورز میں ایک بڑی تعداد اُن انفراسٹرکچر کمپنیوں کی بھی ہے جو صرف ٹاور بنا کر انہیں مختلف نیٹ ورکس کو کرائے پر دیتی ہیں۔


 

ان میں edotco Pakistan شامل ہے جو ملائشیا کی ایک بڑی TowerCo ہے اور ہزاروں ٹاورز چلا رہی ہے۔ Enfrashare Engro Group کا تیزی سے پھیلتا ہوا پلیٹ فارم ہے جو بڑے شہروں اور ہائی ویز پر جدید شیئرنگ سروسز فراہم کرتا ہے۔ AWAL Telecom دور دراز علاقوں میں کوریج بڑھانے کے لیے ٹاورز قائم کرتی ہے، جبکہ TPL TowerCo شہری علاقوں میں جدید ٹاور نیٹ ورک بیس بنا رہی ہے۔ اسی طرح Pakistan Mobile Tower Infrastructure Company یعنی PMTIC مختلف موبائل نیٹ ورکس کو ٹاور شیئرنگ اور سائیٹ مینجمنٹ کی خدمات دیتی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ ٹاور صرف موبائل کمپنیوں کے ہی ہوتے ہیں، درحقیقت پوری ڈیجیٹل اکانومی انہی متنوع ٹاورز کے بنیادی ڈھانچے پر چلتی ہے۔


 

یہ ٹاورز شہر ہوں یا دیہات، پہاڑی سلسلے ہوں یا ساحلی پٹی، ہر جگہ ایک ہی مقصد پورا کرتے ہیں کہ ملک کی ڈیجیٹل زندگی کی شہ رگ کو رواں رکھنا۔


 

آج ہماری روزمرہ زندگی کی ڈیجیٹل ضروریات جیسے انٹرنیٹ، اسٹریمنگ، ڈیجیٹل پیمنٹس، ویڈیو کالز اور لوکیشن بیسڈ سروسز پر چلتی ہے، اس لیے جتنے لوگ آن لائن آ رہے ہیں، جتنے شہر پھیل رہے ہیں اور جتنا موبائل ڈیٹا بڑھ رہا ہے، نیٹ ورک کو اتنی ہی زیادہ صلاحیت درکار ہے۔ اور اسی ضرورت نے پاکستان میں ٹاورز کی تعداد کو مسلسل بڑھاوا دیا ہے۔


 

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ آج سوشل میڈیا پر ویڈیوز بناتے اور ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ریکارڈ کرتے نظر آتے ہیں، اگر موبائل ٹاورز نہ ہوتے تو یہ سب ممکن ہی نہ ہوتا۔


 

ہم اکثر سنتے ہیں کہ "یہاں تو سگنل نہیں آ رہا" یا "نیٹ ورک خراب ہے۔" یہ سگنل آتا کہاں سے ہے؟ موبائل ٹاور ہی وہ جگہ ہیں جہاں سے یہ سگنل آپ کے فون تک پہنچتا ہے۔ اگر یہ ٹاور نہ ہوں تو نہ انٹرنیٹ چلے، نہ کال بنے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر ویڈیوز بن سکیں۔ یعنی ہماری پوری ڈیجیٹل دنیا آج ان ٹاورز کے سہارے چل رہی ہے۔


 

رئیل اسٹیٹ اینالسٹ کے طور پر میرے نزدیک موبائل ٹاور

آج صرف سگنل دینے والی چیز نہیں رہے، بلکہ ایک Infrastructure Economy کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں تین بڑی تبدیلیاں آئیں۔


 

  1. پہلی یہ کہ چھتیں اور خالی جگہیں اب ایک باقاعدہ Recurring Rental Asset بن گئی ہیں، یعنی ایسی جگہیں جو ہر مہینے مستقل آمدنی دیتی ہیں۔
  2. دوسری یہ کہ ٹاور شیئرنگ اور چھتوں کی لیزنگ نے رئیل اسٹیٹ میں ایک نئی Digital Property Market پیدا کر دی ہے، جسے ماہرین Passive Income Infrastructure کہتے ہیں۔
  3. تیسری یہ کہ تیز نیٹ ورک نے شہروں کی معاشی سرگرمی یعنی Urban Productivity بڑھا دی ہے، کیونکہ اسی سے ای کامرس، آن لائن تعلیم، ریموٹ جابز اور ڈیجیٹل کاروبار چل رہے ہیں۔ اور یوں موبائل ٹاور دراصل جدید شہری معیشت کے Growth Multipliers بن چکے ہیں۔


 

پہلے جو چھتیں بے فائدہ سمجھی جاتی تھیں، آج وہ لیز ایگریمنٹ، سالانہ کرایوں اور Access Rights کے ذریعے بامنافع آمدنی پیدا کرنے والی جگہیں بن گئی ہیں۔ ٹاورز نے رہائشی علاقوں کی زوننگ کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے، اور کئی عمارتیں آہستہ آہستہ نیم کمرشل شکل اختیار کر رہی ہیں۔ بعض جگہوں پر تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ کمرشل پلاٹ کی اصل آمدنی دکان سے نہیں، بلکہ ٹاور لیزنگ سے آنے لگی ہے۔ رئیل اسٹیٹ ماہرین اس پورے عمل کو Land Use Transformation کہتے ہیں، یعنی زمین کے استعمال کی نوعیت اور اس کی قدر کا بدل جانا۔


 

دوسری طرف ان ٹاورز کا شور، مشینری کی آمدورفت، پرائیویسی کے خدشات اور ریڈی ایشن کا خوف بھی زمینی حقائق میں شامل ہے۔

کچھ جگہوں پر مشینری کے شور، جنریٹر کے دھوئیں اور رات کے وقت آنے والے ٹیکنیشنز کی آمد نے رہائشیوں کے لیے خدشات پیدا کیے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی تشویش ہے کہ ٹاور کی اونچائی پر لگا کیمرہ ان کی نجی زندگی میں جھانکتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کیمرے عام طور پر صرف ٹاور کی سیکیورٹی کے لیے ہوتے ہیں۔


 

اس کے علاوہ ریڈی ایشن کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے۔ شہری حلقے سمجھتے ہیں کہ ٹاورز سے نکلنے والی لہریں صحت کے لیے خطرناک ہو سکتی ہیں، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شہر میں موبائل ٹاور لگانے سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کو پیشگی اطلاع دی جائے، اور ٹاور کی تنصیب سے پہلے Electromagnetic Field Test، اس کی EMF رپورٹ اور مکمل Environmental Impact Study سامنے لائی جائے۔


 

(EMF Test اس بات کی پیمائش کرتا ہے کہ ٹاور کتنی الیکٹرو میگنیٹک ریڈی ایشن خارج کر رہا ہے، جبکہ EMF Report اسی ٹیسٹ کی وہ تکنیکی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریڈی ایشن کی مقدار، پیمائش کا مقام اور عالمی معیار کے ساتھ اس کا تقابل شامل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس Environmental Impact Study ایک وسیع جائزہ ہے جو صرف ریڈی ایشن تک محدود نہیں رہتا بلکہ ٹاور کے شور، جنریٹر کے دھوئیں، پرندوں اور ماحول پر اثرات، روشنی کے پھیلاؤ، اردگرد کے رہائشی علاقوں اور مجموعی شہری ماحول پر پڑنے والے اثرات کو بھی پرکھتا ہے۔ اسی لیے ٹاور لگانے سے پہلے ان تینوں مراحل کا الگ الگ ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ شہری صحت اور ماحول کے تحفظ کے لیے بنیادی شرط سمجھا جاتا ہے۔)

دنیا کے بڑے شہروں میں ٹاورز کی منظوری بلڈنگ قوانین اور شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کے مطابق دی جاتی ہے، جبکہ رہائشی علاقوں میں سخت پابندیاں نافذ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی ماڈل اپنانا چاہیے۔ سب سے پہلے ایک آزاد Independent Tower Regulation Authority قائم ہو، جو بغیر دباؤ کے فیصلہ کر سکے۔


 

  • تمام ٹاورز کا Radiation Audit کیا جائے
  • رہائشی علاقوں میں نئے ٹاور مکمل طور پر بند کیے جائیں
  • جو ٹاور پہلے سے لگے ہیں، ان کی Health Impact Study لازمی قرار دی جائے
  • ٹاور کرایوں کے بارے میں بھی Disclosure Law بنے تاکہ عوام کو علم ہو کہ کس نے کتنے میں اپنی جگہ کرائے پر دی
  • اور سب سے اہم یہ کہ عوام کے لیے ایک ایسا PTA Radiation Portal بنایا جائے جہاں ہر شہری اپنے علاقے کے ٹاور کی ریڈی ایشن، اجازت نامے اور تکنیکی رپورٹس خود دیکھ سکے


 


 

1 Comment

14 Shares

35 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

دریا کی زمین ۔ پہلی قسط

لاہور میں دریا کی زمین (River Bed) پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا انکشاف ▫️پارک ویو سوسائٹی اور Ruda (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی منظور شدہ سوسائیٹیز کا مستقبل کیا ہے؟